۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
حجت الاسلام علی اکبر عالمیان

حوزہ/ استاد جامعۃ المصطفی العالمیہ نے نبی اکرم(ص) کے چچا کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت حمزہ(ع) برجستہ خصوصیات اور خصلتوں کے مالک تھے، وہ شجاعت اور جنگجوؤں میں شہرت رکھتے تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جامعۃ المصطفی العالمیہ کے استاد حجت الاسلام و المسلمین علی اکبر عالمیان نے انٹرنیشنل چینل ولایت کی دعوت پر سوگوارہ پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب(ع) کی شہادت کے یوم پر منائے گئے اس پروگرام میں پروگرام کے اینکر کے سوالات کا جواب دیا۔

تاریخ، سیرہ اور اسلامی تمدن کے ہائیر ایجوکیشنل کمپلیکس کے استاد نے نبی اکرم(ص) کے چچا کی تاریخ شہادت کی مناسبت سے “دلیری” اور “معرفت” کو نبی اکرم(ص) کے چچا کی شخصیت میں اہم ترین عنصر قرار دیا اور اس سوال کے جواب میں کہ ان کی تاریخ پیدائش کیا ہے، کہاکہ تاریخی منابع میں ان کی تاریخ پیدائش کے متعلق مختلف اقوال بیان ہوئے ہیں۔

ابن اسحاق حضرت حمزہ(ع) کی تاریخ پیدائش کو رسول اللہ(ص) کی تاریخ پیدائش سے دو سال پہلے بتاتے ہیں۔ بلاذری اور واقدی ان دونوں شخصیات کی عمر کا فرق چار سال کہتے ہیں اور کچھ موجودہ مورخ جیسے علامہ سید جعفر مرتضی عاملی اس فرق کو تیرہ سے پندرہ سال بیان کرتے ہیں۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ حضرت حمزہ(ع) دو سے چار سال عام الفیل (نبی اکرم(ص) کی پیدائش کا سال) سے پہلے پیدا ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر علی اکبر عالمیان ان کے والدین کے حوالے سے یقین دہانی کرتے ہیں کہ منابع کے اقوال کے مطابق، ان کے والد یعنی جناب عبدالمطلب کے ۱۱ بیٹے اور ۶ بیٹیاں تھیں جو کہ ۵ ازواج سے ہوئے تھے اور حضرت حمزہ(ع) اور ان کی بہن صفیہ ایک بیوی یعنی ہالہ بنت اُہَیب (وُہَیب) بن عبدمَناف بن زُہرہ سے پیدا ہوئے تھے۔ اس بنا پر وہ نبی اکرم(ص) کے سوتیلے چچا تھے لیکن کیونکہ ان دونوں شخصیات نے ایک ہی خاتون “ثوبیہ” کا دودھ پیا تھا اور ایکدوسرے کے رضاعی بھائی شمار ہوتے تھے اور بعد میں نبی اکرم(ص) نے میمونہ نامی خاتون سے شادی کی تھی جو کہ حضرت حمزہ(ع) کی زوجہ کی بہن تھیں؛ اس بنا پر دونوں ہم زلف ٹھہرتے ہیں۔

تاریخ اسلام کے استاد نے حضرت حمزہ(ع) کی اولاد کی تعداد کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہاکہ حضرت حمزہ(ع) کی تین بیویاں تھیں جن سے چار بیٹے یعلی، عمارہ، بکر اور عامر اور امامہ نامی ایک بیٹی ہوئے جبکہ امامہ کے بیٹے حدیث غدیر کے راویوں میں سے ہیں۔

انہوں نے نبی اکرم(ص) کے چچا کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے بیان کیاکہ حضرت حمزہ(ع) برجستہ خصوصیات اور خصلتوں کے مالک تھے۔ وہ شجاعت اور جنگجوئی میں شہرت رکھتے تھے اور “فرسان قریش” سے مشہور تھے۔ حضرت حمزہ(ع) نبی اکرم(ص) کے قریبی ساتھی تھے اور اپنی شہادت کے بعد جبرئیل کے ذریعے اسد رسول اللہ سے ملقب ہوئے۔ اس فخریہ لقب کے علاوہ “سیدالشہداء” بھی نبی اکرم(ص) کے چچا کے القاب میں سے ہے۔

حجت الاسلام عالمیان نے امویوں کی حضرت حمزہ(ع) سے دشمنی کی وجہ کے متعلق سوال پر جواب دیا: امویوں کا ان سے اموی حکومت سے پہلے اور حکومت کے دوران دشمنی اور عناد رہی۔ حکومت سے پہلے، اس دشمنی کی خاص وجہ، بنی امیہ اور بنی ہاشم کے درمیان مقابلہ اور تاریخی دشمنی تھی اور یہی بات امویوں اور حضرت حمزہ(ع) کے باہمی تعلقات میں اثرانداز رہی۔ اس بات کا ثبوت ان کی رسول اللہ(ص) کے گرانقدر چچا سے کینہ اور بغض حضرت حمزہ(ع) کی شہادت کے موقع پر ان کے جنازے کے ساتھ ان کے سلوک سے نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر عالمیان نے امویوں کی حکومت کے دوران حضرت حمزہ(ع) سے ان کی دشمنی کی وجہ کے بارے میں حضرت حمزہ(ع) کی نبی اکرم(ص) اور اسلام کی حمایت کو بیان کیا۔ ان کے بقول، اس دشمنی کا عملی ثبوت ان کی طرف سے حضرت حمزہ(ع) کے خلاف جعلی احادیث بنانے اور ابوسفیان اور اس کے بیٹے معاویہ کا حضرت حمزہ(ع) کی قبر سے سلوک میں دیکھا جا سکتا ہے۔

جامعۃ المصطفی کے تاریخ کے استاد نے اسلام کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں حضرت حمزہ(ع) کے کردار سے متعلق کہا: اسلام لانے سے پہلے، ان کی طرف سے رسول اللہ(ص) کی حمایت بہت واضح اور آشکار ہے۔ مسلمان ہونے کے بعد بھی ان کا کردار بہت مرکزی اور برجستہ تھا۔ ڈاکٹر عالمیان نے مزید کہا: حضرت حمزہ(ع) کا حالات اور مصلحتوں کی بنیاد پر نبی اکرم(ص) کے باقی چچاوں کے مقابلے میں حضور(ص) کی حمایت میں کردار سب سے زیادہ آشکار اور واضح کردار ہے۔ ان کے مسلمان ہونے کا واقعہ بھی اسی حمایت اور غیرتمندی سے مربوط ہے؛ چنانچہ مختلف تاریخی اقوال میں منقول ہے کہ جب ان کو معلوم ہوا کہ ابوجہل نے پہاڑی صفا کے قریب نبی اکرم(ص) کو نازیبا الفاظ سے مخاطب کیا ہے؛ وہ جو شکار سے واپس پلٹ رہے تھے، اپنا کمان اٹھایا اور ابوجہل کے سَر پر دے مارا جس سے ابوجہل کا سر زخمی ہوگیا۔ اس کے بعد کہا: “تم محمد(ص) کو گالیاں دیتے ہو؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میں اس کے دین میں داخل ہوچکا ہوں؟ جو کچھ وہ کہیں، میں بھی وہی کچھ کہتا ہوں۔”

حجت الاسلام عالمیان نے تاکید کی: حضرت حمزہ(ع) کا مسلمان ہونا، نبی اکرم(ص) اور مسلمانوں کی بہت زیادہ خوشی اور قریش کے کفار کی ناراضگی اور غصے کا باعث بنا اور ابن ہشام کے بقول اس کے بعد کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں مسلمان ہونے لگے۔

تاریخ کے ہایئر ایجوکیشنل کمپلیکس کے برجستہ استاد نے حضرت حمزہ(ع) سے متعلق آئمہ علیہم السلام کے فرامین کے متعلق سوال پر جواب دیا: تاریخی روایات میں آئمہ اطہار علیہم السلام کا حضرت حمزہ(ع) پر فخر کرنا قابل ذکر ہے۔ آئمہ اطہار(ع) کے فرامین میں خاص طور پر وہ امام جو کہ امویوں کے دوران رہے ہیں، میں یہ فخر کرنا دیگر ادوار کی نسبت زیادہ نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر عالمیان نے اس فخر کرنے کی تفصیل اور تشریح کو بیان کرتے ہوئے کہا: یہ فخر کرنا سب سے زیادہ رسول اللہ(ص) نے علی(ع) کو بتلایا تھا۔ اسی طرح یہ فخر کرنا امام علیہ السلام کے معاویہ سے مکاتبات میں بھی خاص طور نظر آتا ہے۔ امام حسن مجتبی(ع) بھی امویوں سے اپنے احتجاجی الفاظ میں اس فخر کو ذکر کرتے ہوئے جناب حمزہ(ع) کو نیک الفاظ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ امام حسین(ع) بھی عاشور کے دن دشمنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں: “کیا شہیدوں کے سردار حمزہ میرے والد کے چچا نہیں تھے؟” شام اور یزید کے دربار میں امام سجاد(ع) کے خطبے میں بھی یہ فخر کرنا نظر آتا ہے۔

جامعۃ المصطفی کے استادِ تاریخ نے اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہا: میرے خیال کے مطابق حضرت حمزہ(ع) سے مقابلے اور دشمنیوں کی اصلی وجوہات یہ ہیں: جناب حمزہ کا پیغمبر(ص) اور مسلمانوں کی حمایت کرنا۔ اموی لوگ حضرت حمزہ(ع) کے مقام اور کردار کی وجہ سے ان سے دشمنی کرتے تھے تا کہ اس سے نبی اکرم(ص) اور اہل بیت(ع) کی محبوب ترین شخصیت کے مقام کو گرا سکیں۔

حجت الاسلام و المسلمین علی اکبر عالمیان نے پروگرام کے اختتام پر اسلام کی بڑی شخصیات کے تعارف پر زور دیا اور کہا: اس ضمن میں ممتاز ادارے جامعۃ المصطفی جو کہ انقلاب اسلامی کے نتائج میں سے ہے، کا ذکر کرنا چاہیئے جو اس کام میں پیش پیش ہے اور اس مقصد میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے تاریخ، سیرہ اور تمدن کے ہائیر ایجوکیشنل کمپلیکس جو کہ جامعۃ المصطفی کے اہم اور علمی مراکز میں سے ہے، کی محنتوں کی قدردانی کرتے ہوئے کہا: اب تک علمی اور اینٹرنیشنل سمیناروں کی صورت میں، حضرت خدیجۃ الکبری(س) اور حضرت ابوطالب(ع) جیسے اشخاص کی تکریم اور تبیین کی گئی ہے۔ گذشتہ فروری میں حضرت حمزہ(ع) کا اینٹرنیشنل سمینار بہت شان اور شوکت سے منعقد ہوا جو کہ رہبر معظم انقلاب اور مراجع عظام تقلید کی طرف سے بہت سراہا گیا۔ ان شاءاللہ مستقبل قریب میں مزید شخصیات جیسے ام سلمہ(س)، جناب جعفر اور دیگر اشخاص کی تکریم اور تعارف سے متعلق بھی پروگرام منعقد کیئے جائیں گے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .